کبھی سکوں کبھی صبر و قرار ٹوٹے گا
اگر یہ دل ہے تو پھر بار بار ٹوٹے گا
وہ اپنے ظرف سے بڑھ کر بھرا ہوا بادل
یہ دیکھنا کہیں بے اختیار ٹوٹے گا
وہ ایک پل بھی کسی روز آ ہی جائے گا
کہ جب یہ زندگی پر اعتبار ٹوٹے گا
وگرنہ چلتا رہے گا یہ سلسلہ یوں ہی
میں ٹوٹ جاؤں تبھی انتشار ٹوٹے گا
پھر ایک بار غلط نکلا یہ قیاس مرا
گرا چٹان پہ تو آبشار ٹوٹے گا
ترے زوال کی منزل ابھی نہیں آئی
نشہ تو ٹوٹ چکا اب خمار ٹوٹے گا
اسی خیال سے شاید ڈرا ہوا ہے ساز
اگر یہ راگ نہ ٹوٹا تو تار ٹوٹے گا
کوئی اداس سا نغمہ ہی گنگنائیں ہم
تبھی طلسم شب انتظار ٹوٹے گا

غزل
کبھی سکوں کبھی صبر و قرار ٹوٹے گا
بھارت بھوشن پنت