EN हिंदी
کبھی ستارہ کبھی رمز و استعارہ ہوا | شیح شیری
kabhi sitara kabhi ramz-o-istiara hua

غزل

کبھی ستارہ کبھی رمز و استعارہ ہوا

خورشید افسر بسوانی

;

کبھی ستارہ کبھی رمز و استعارہ ہوا
عجیب ڈھنگ سے وہ مجھ پہ آشکارا ہوا

سبھی نے آئینہ دیکھا ابھی مسلم تھا
تری نگاہ پڑی اور پارہ پارہ ہوا

رکھا گیا ہے حفاظت سے سیلف میں مجھ کو
کہ جیسے میں بھی خصوصی کوئی شمارہ ہوا

ہمیں نے آگ لگائی تھی اپنے دامن میں
پھر اس کے بعد نہ آنسو کوئی شرارہ ہوا

لہو کا قطرہ تھا وہ بھی جو اپنی گردش میں
کہیں چراغ بنا اور کہیں ستارہ ہوا

ترے جمال کا سودا تو کر لیا لیکن
کبھی نگاہ کبھی جان کا خسارہ ہوا

نفس نفس تری ہمسائیگی ملی مجھ کو
میں تیرا پردہ ہوا تو مرا نظارہ ہوا