کبھی شعور کبھی دل کبھی سخن مہکے
کہو وہ شعر کہ دنیائے فکر و فن مہکے
عطا ہمیں بھی جو ہو جائے میرؔ کا انداز
تو لفظ لفظ سے معنی کا پیرہن مہکے
رہوں خموش تو پھولوں کو نیند آ جائے
پڑھوں جو شعر تو لفظوں کا بانکپن مہکے
لرزتے ہونٹوں کی وہ گفتگو تو یاد نہیں
بس اتنا یاد ہے برسوں لب و دہن مہکے
دبی ہوئی ہے جو صدیوں سے غم کی چنگاری
بھڑک اٹھے تو خیالوں کی انجمن مہکے
کبھی تو ایسا زمانہ بھی آئے اے گوہرؔ
محبتوں کی فضا سے مرا وطن مہکے

غزل
کبھی شعور کبھی دل کبھی سخن مہکے
گوہر عثمانی