EN हिंदी
کبھی شعر و نغمہ بن کے کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے | شیح شیری
kabhi sher-o-naghma ban ke kabhi aansuon mein Dhal ke

غزل

کبھی شعر و نغمہ بن کے کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے

خمارؔ بارہ بنکوی

;

کبھی شعر و نغمہ بن کے کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے
وہ مجھے ملے تو لیکن ملے صورتیں بدل کے

یہ وفا کی سخت راہیں یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھ سے مرے ساتھ ساتھ چل کے

وہی آنکھ بے بہا ہے جو غم جہاں میں ڈوبے
وہی جام جام ہے جو بغیر فرق چھلکے

نہ تو ہوش سے تعارف نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہم تری بزم سے نکل کے

یہ چراغ انجمن تو ہیں بس ایک شب کے مہماں
تو جلا وہ شمع اے دل جو بجھے کبھی نہ جل کے

کوئی اے خمارؔ ان کو مرے شعر نذر کر دے
جو مخالفین مخلص نہیں معترف غزل کے