EN हिंदी
کبھی شام ہجر گزارتے کبھی زلف یار سنوارتے | شیح شیری
kabhi sham-e-hijr guzarte kabhi zulf-e-yar sanwarte

غزل

کبھی شام ہجر گزارتے کبھی زلف یار سنوارتے

حسن رضوی

;

کبھی شام ہجر گزارتے کبھی زلف یار سنوارتے
کٹی عمر اپنی قفس قفس تری خوشبوؤں کو پکارتے

نہ وہ مہ جبینوں کی ٹولیاں نہ وہ رنگ رنگ کی بولیاں
نہ محبتوں کی وہ بازیاں کبھی جیتتے کبھی ہارتے

وہ جو آرزوؤں کے خواب تھے وہ خیال تھے وہ سراب تھے
سر دشت ایک بھی گل نہ تھا جسے آنسوؤں سے سنوارتے

تھا جو ایک لمحہ وصال کا وہ ریاض تھا کئی سال کا
وہی ایک پل میں گزر گیا جسے عمر گزری پکارتے

تھے جو جان سے بھی عزیز تر رہے عمر بھر وہی بے خبر
تھی یہ آرزو مرے چارہ گر مری ناؤ پار اتارتے

نہیں لب پہ کوئی سوال تھا مرا دل تمام ملال تھا
میں خموش در پہ کھڑا رہا رہے وہ بھی گیسو سنوارتے