کبھی رقص شام بہار میں اسے دیکھتے
کبھی خواہشوں کے غبار میں اسے دیکھتے
مگر ایک نجم سحر نما کہیں جاگتا
ترے ہجر کی شب تار میں اسے دیکھتے
وہ تھا ایک عکس گریز پا سو نہیں رکا
کٹی عمر دشت و دیار میں اسے دیکھتے
وہ جو بزم میں رہا بے خبر کوئی اور تھا
شب وصل میرے کنار میں اسے دیکھتے
جو ازل کی لوح پہ نقش تھا وہی عکس تھا
کبھی آپ قریۂ دار میں اسے دیکھتے
وہ جو کائنات کا نور تھا نہیں دور تھا
مگر اپنے قرب و جوار میں اسے دیکھتے
یہی اب جو ہے یہاں نغمہ خواں یہی خوش بیاں
کسی شام کوئے نگار میں اسے دیکھتے
غزل
کبھی رقص شام بہار میں اسے دیکھتے
امجد اسلام امجد