کبھی قلم کبھی نیزوں پہ سر اچھلتے ہیں
اب اس فصیل سے سورج کہاں نکلتے ہیں
گھروں سے بے سبب اپنے کہاں نکلتے ہیں
ضرورتوں کے اشاروں پہ لوگ چلتے ہیں
اندھیرا ان کے گھروں کا بہت بھیانک ہے
تمام شہر میں جن کے چراغ جلتے ہیں
ہوا کے جھونکے ہیں تیرے پیامبر لیکن
ہوا کے جھونکے ہی چہروں پہ خاک ملتے ہیں
بدل بھی جائے اگر وہ تو ہم نہ بدلیں گے
نظر کے ساتھ نظارے کہاں بدلتے ہیں
وہاں کے سر پھرے دریاؤں کا خدا حافظ
پہاڑ آگ بہت کم جہاں اگلتے ہیں
اسی کے نغموں سے جھومے گی کائنات اے یادؔ
وہ جس کے سامنے آہن صفت پگھلتے ہیں
غزل
کبھی قلم کبھی نیزوں پہ سر اچھلتے ہیں
شاہجہاں بانو یاد