کبھی پیروں سے آنکھوں تک چبھن محسوس ہوتی ہے
کبھی یہ زندگی مجھ کو چمن محسوس ہوتی ہے
مسافت نے مسافر سے کہا تو تھک رہا ہے کیوں
تھکن محسوس کرنے سے تھکن محسوس ہوتی ہے
تو پھر میں سوچتا ہوں روح کی پاکیزگی کیا ہے
محبت جب مجھے اپنا بدن محسوس ہوتی ہے
بلند و بالا لگتی ہے کبھی یہ آسماں جتنی
کبھی یہ چھت مجھے اپنا کفن محسوس ہوتی ہے
وہاں مٹی تلے میں ہائے کیسے سانس کھینچوں گا
مجھے تازہ ہوا میں بھی گھٹن محسوس ہوتی ہے
نہ آنکھوں میں وہ پہلے سا کوئی فوارہ اٹھتا ہے
نہ سینے میں وہ پہلی سی جلن محسوس ہوتی ہے
یہ دنیا پہلے بھی خود میں مگن محسوس ہوتی تھی
یہ دنیا آج بھی خود میں مگن محسوس ہوتی ہے
غزل
کبھی پیروں سے آنکھوں تک چبھن محسوس ہوتی ہے
عمران شمشاد