EN हिंदी
کبھی نصیب کی بھولے سے بھی سحر نہ ہوئی | شیح شیری
kabhi nasib ki bhule se bhi sahar na hui

غزل

کبھی نصیب کی بھولے سے بھی سحر نہ ہوئی

مشتاق سنگھ

;

کبھی نصیب کی بھولے سے بھی سحر نہ ہوئی
بغیر حسرت و غم زندگی بسر نہ ہوئی

سحر قریب ہے شمع حیات بجھتی ہے
دیار غیر میں یاروں کو ہی خبر نہ ہوئی

تمہیں قریب سے دیکھتا تو خود کو پہچانا
شعاع حسرت دل ہم پہ بے اثر نہ ہوئی

کہاں کہاں نہ ہوئی داستان دل رسوا
وہ کو بہ کو نہ ہوئی یا کہ در بدر نہ ہوئی

مریض عشق کا تو اس قدر فسانہ ہے
دوا ہو یا کہ دعا کوئی کارگر نہ ہوئی

اٹھائیں تہمتیں ہم نے جہان بھر کی مگر
ذرا سی بھول کی بھی تم سے درگزر نہ ہوئی

اگرچہ مے کدہ میں تشنگی غضب کی تھی
ہمارے واسطے ہی مہرباں نظر نہ ہوئی