کبھی نہ خود کو بد اندیش دشت و در رکھا
اتر کے چاہ میں پاتال کا سفر رکھا
یہی بہت تھے مجھے نان و آب و شمع و گل
سفر نژاد تھا اسباب مختصر رکھا
ہوائے شام دلآزار کو اسیر کیا
اور اس کو دشت میں پن چکیوں کے گھر رکھا
وہ ایک ریگ گزیدہ سی نہر چلنے لگی
جو میں نے چوم کے پیکاں کمان پر رکھا
وہ آئی اور وہیں طاقچوں میں پھول رکھے
جو میں نے نذر کے پتھر پہ جانور رکھا
جبیں کے زخم پہ مثقال خاک رکھی اور
اک الوداع کا شگوں اس کے ہاتھ پر رکھا
گرفت تیز رکھی رخش عمر پر میں نے
بجائے جنبش مہمیز نیشتر رکھا
غزل
کبھی نہ خود کو بد اندیش دشت و در رکھا
افضال احمد سید