کبھی ملی جو ترے درد کی نوا مجھ کو
خموشیوں نے مجھی سے کیا جدا مجھ کو
بدن کے سونے کھنڈر میں کبھی جلا مجھ کو
میں تیری روح کی ضو ہوں نہ یوں بجھا مجھ کو
میں اپنی ذات کی ہم سائیگی سے ڈرتا ہوں
مرے قریب خدا کے لیے نہ لا مجھ کو
میں چپ ہوں اپنی شکست صدا کی وحشت پر
مجھے نہ بولنا پڑ جائے مت بلا مجھ کو
یہ میں تھا یا مرے اندر کا خوف تھا جس نے
تمام عمر دی تنہائی کی سزا مجھ کو
بھٹک رہا ہوں میں بے سمت راستوں کی طرح
کسی بھی سمت کا ہو راستہ دکھا مجھ کو
ہر اک نے دیکھا مجھے اپنی اپنی نظروں سے
کوئی تو میری نظر سے بھی دیکھتا مجھ کو
سمو کے آنکھوں میں امڈی گھٹائیں اے آزادؔ
وہ ایک درد کا صحرا بنا گیا مجھ کو
غزل
کبھی ملی جو ترے درد کی نوا مجھ کو
آزاد گلاٹی