EN हिंदी
کبھی مہر و ماہ و نجوم سے کبھی کہکشاں سے گزر گیا | شیح شیری
kabhi mahr-o-mah-o-nujum se kabhi kahkashan se guzar gaya

غزل

کبھی مہر و ماہ و نجوم سے کبھی کہکشاں سے گزر گیا

محمد امیر اعظم قریشی

;

کبھی مہر و ماہ و نجوم سے کبھی کہکشاں سے گزر گیا
میں تری تلاش میں آخرش حد لا مکاں سے گزر گیا

یہ تفاوت صنم و حرم ہے تبھی کہ جب بھی نشہ ہو کم
جو بھی غرق بادۂ حق ہوا غم این و آں سے گزر گیا

کبھی شہر حسن خیال سے کبھی دشت حزن و ملال سے
ترے عشق میں تیرے پیار میں میں کہاں کہاں سے گزر گیا

تری رہ گزر مری رہ گزر ترے نقش پا مری راہ پر
تو جہاں جہاں سے گزر گیا میں وہاں وہاں سے گزر گیا

رہ زندگی میں مقام وہ مجھے بارہا ملے دوستو
کہ خرد کا پاؤں پھسل گیا ہے جنوں جہاں سے گزر گیا

مرا جسم کیا مری روح کیا نہیں کوئی زخموں کی انتہا
اے امیرؔ تیر نگاہ حسن کہاں کہاں سے گزر گیا