EN हिंदी
کبھی خرد سے کبھی دل سے دوستی کر لی | شیح شیری
kabhi KHirad se kabhi dil se dosti kar li

غزل

کبھی خرد سے کبھی دل سے دوستی کر لی

زبیر رضوی

;

کبھی خرد سے کبھی دل سے دوستی کر لی
نہ پوچھ کیسے بسر ہم نے زندگی کر لی

اندھیری رات کا منظر بھی خوب تھا لیکن
تم آ گئے تو چراغوں میں روشنی کر لی

تمہارا جسم ہے جاڑوں کا سرد سناٹا
حرارتوں سے کہاں تم نے دوستی کر لی

حضور دوست عجب حادثہ ہوا یارو
ہر ایک حرف شکایت نے خودکشی کر لی

لیے پھرے ہیں بہت تم کو دل کی گلیوں میں
اس ایک بات پہ دنیا نے دشمنی کر لی

ہر ایک موڑ پہ خنجر بکف تھی تنہائی
غریب شہر نے گھبرا کے خودکشی کر لی