کبھی خنداں کبھی گریاں کبھی رقصا چلیے
دور تک ساتھ ترے عمر گریزاں چلیے
رسم دیرینۂ عالم کو بدلنے کے لیے
رسم دیرینۂ عالم سے گریزاں چلیے
آسمانوں سے برستا ہے اندھیرا کیسا
اپنی پلکوں پہ لیے جشن چراغاں چلیے
شعلۂ جاں کو ہوا دیتی ہے خود باد سموم
شعلۂ جاں کی طرح چاک گریباں چلیے
عقل کے نور سے دل کیجیے اپنا روشن
دل کی راہوں سے سوئے منزل انساں چلیے
غم نئی صبح کے تارے کا بہت ہے لیکن
لے کے اب پرچم خورشید درخشاں چلیے
سر بکف چلنے کی عادت میں نہ فرق آ جائے
کوچۂ دار میں سر مست و غزلخواں چلیے
غزل
کبھی خنداں کبھی گریاں کبھی رقصا چلیے
علی سردار جعفری