EN हिंदी
کبھی کبھی یوں بھی ہم نے اپنے جی کو بہلایا ہے | شیح شیری
kabhi kabhi yun bhi humne apne ji ko bahlaya hai

غزل

کبھی کبھی یوں بھی ہم نے اپنے جی کو بہلایا ہے

ندا فاضلی

;

کبھی کبھی یوں بھی ہم نے اپنے جی کو بہلایا ہے
جن باتوں کو خود نہیں سمجھے اوروں کو سمجھایا ہے

ہم سے پوچھو عزت والوں کی عزت کا حال کبھی
ہم نے بھی اک شہر میں رہ کر تھوڑا نام کمایا ہے

اس کو بھولے برسوں گزرے لیکن آج نہ جانے کیوں
آنگن میں ہنستے بچوں کو بے کارن دھمکایا ہے

اس بستی سے چھٹ کر یوں تو ہر چہرہ کو یاد کیا
جس سے تھوڑی سی ان بن تھی وہ اکثر یاد آیا ہے

کوئی ملا تو ہاتھ ملایا کہیں گئے تو باتیں کیں
گھر سے باہر جب بھی نکلے دن بھر بوجھ اٹھایا ہے