کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو
کہ روٹھتے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو
گلا تو یہ ہے تم آتے نہیں کبھی لیکن
جب آتے بھی ہو تو فوراً ہی جانے لگتے ہو
یہ بات جونؔ تمہاری مذاق ہے کہ نہیں
کہ جو بھی ہو اسے تم آزمانے لگتے ہو
تمہاری شاعری کیا ہے برا بھلا کیا ہے
تم اپنے دل کی اداسی کو گانے لگتے ہو
سرود آتش زرین صحن خاموشی
وہ داغ ہے جسے ہر شب جلانے لگتے ہو
سنا ہے کاہکشانوں میں روز و شب ہی نہیں
تو پھر تم اپنی زباں کیوں جلانے لگتے ہو
غزل
کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو
جون ایلیا