EN हिंदी
کبھی کبھی مجھے اتنا بھی تو نبھایا کر | شیح شیری
kabhi kabhi mujhe itna bhi tu nibhaya kar

غزل

کبھی کبھی مجھے اتنا بھی تو نبھایا کر

سون روپا وشال

;

کبھی کبھی مجھے اتنا بھی تو نبھایا کر
کہ اپنے آپ کو کچھ دیر بھول جایا کر

نہ چھت پہ چاند ٹکے گا نہ رات ٹھہرے گی
ہر ایک خواب کو آنکھوں میں مت سجایا کر

میں چاہتی ہوں کہ ہر روپ میں تجھے دیکھوں
کبھی کبھی مری باتوں سے تنگ آیا کر

تری پسند کی غزلیں میں لکھ تو دوں لیکن
یہ شرط ہے کہ انہیں ہی تو گنگنایا کر

میں کشتیوں کی کہانی تجھے سناؤں گی
تو ساحلوں کی کہانی مجھے سنایا کر

میں اپنے آپ سے ملنے کو بھی ترس جاؤں
مرے وجود میں اتنا بھی مت سمایا کر