کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ مجھ کو تیری تلاش کیوں ہے
کہ جب ہیں سارے ہی تار ٹوٹے تو ساز میں ارتعاش کیوں ہے
کوئی اگر پوچھتا یہ ہم سے بتاتے ہم گر تو کیا بتاتے
بھلا ہو سب کا کہ یہ نہ پوچھا کہ دل پہ ایسی خراش کیوں ہے
اٹھا کے ہاتھوں سے تم نے چھوڑا چلو نہ دانستہ تم نے توڑا
اب الٹا ہم سے تو یہ نہ پوچھو کہ شیشہ یہ پاش پاش کیوں ہے
عجب دوراہے پہ زندگی ہے کبھی ہوس دل کو کھینچتی ہے
کبھی یہ شرمندگی ہے دل میں کہ اتنی فکر معاش کیوں ہے
نہ فکر کوئی نہ جستجو ہے نہ خواب کوئی نہ آرزو ہے
یہ شخص تو کب کا مر چکا ہے تو بے کفن پھر یہ لاش کیوں ہے
غزل
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ مجھ کو تیری تلاش کیوں ہے
جاوید اختر