EN हिंदी
کبھی جنوں تو کبھی آگہی کی قید میں ہوں | شیح شیری
kabhi junun to kabhi aagahi ki qaid mein hun

غزل

کبھی جنوں تو کبھی آگہی کی قید میں ہوں

کرشن بہاری نور

;

کبھی جنوں تو کبھی آگہی کی قید میں ہوں
میں اپنے ذہن کی آوارگی کی قید میں ہوں

شراب میرے لبوں کو ترس رہی ہوگی
میں رند تو ہوں مگر تشنگی کی قید میں ہوں

نہ کوئی سمت نہ جادہ نہ منزل مقصود
یگوں یگوں سے یوں ہی بے رخی کی قید میں ہوں

کسی کے رخ سے جو پردہ اٹھا دیا میں نے
سزا یہ پائی کی دیوانگی کی قید میں ہوں

یہ کس خطا کی سزا میں ہیں دوہری زنجیریں
گرفت موت کی ہے زندگی کی قید میں ہوں

نہ جانے کتنی نقابیں الٹتا جاتا ہوں
جنم جنم سے میں بے چارگی کی قید میں ہوں

یہاں تو پردۂ سیمیں پہ چل رہی ہے فلم
میں جس جگہ ہوں وہاں روشنی کی قید میں ہوں

جہاں میں قید سے چھوٹوں وہیں پہ مل جانا
ابھی نہ ملنا ابھی زندگی کی قید میں ہوں

غرض نصیب میں لکھی رہی اسیری ہی
کسی کی قید سے چھوٹا کسی کی قید میں ہوں

گناہ یہ ہے کہ کیوں اپنا نام رکھا نورؔ
وہ دن اور آج کا دن تیرگی کی قید میں ہوں