کبھی جو معرکہ خوابوں سے رت جگوں کا ہوا
عجیب سلسلہ آنکھوں سے آنسوؤں کا ہوا
جلا کے چھوڑ گیا تھا جو طاق دل میں کبھی
کسی نے پوچھا نہ کیا حال ان دیوں کا ہوا
لکھا گیا ہے مرا نام دشمنوں میں سدا
شمار جب بھی کبھی میرے دوستوں کا ہوا
مذاق اڑاتے تھے آندھی سے پہلے سب میرا
جو میرے گھر کا تھا پھر حال سب گھروں کا ہوا
بدل رہی ہیں مرے ہاتھ کی لکیریں پھر
کہا نہ اب کے بھی شاید نجومیوں کا ہوا
وفا شعار طبیعت کا یہ صلہ ہے نورؔ
مری حیات کا ہر لمحہ دوسروں کا ہوا

غزل
کبھی جو معرکہ خوابوں سے رت جگوں کا ہوا
شہناز نور