EN हिंदी
کبھی جو آنکھوں میں پل بھر کو خواب جاگتے ہیں | شیح شیری
kabhi jo aankhon mein pal-bhar ko KHwab jagte hain

غزل

کبھی جو آنکھوں میں پل بھر کو خواب جاگتے ہیں

اخلاق بندوی

;

کبھی جو آنکھوں میں پل بھر کو خواب جاگتے ہیں
تو پھر مہینوں مسلسل عذاب جاگتے ہیں

کسی کے لمس کی تاثیر ہے کہ برسوں بعد
مری کتابوں میں اب بھی گلاب جاگتے ہیں

برائی کچھ تو یقیناً ہے بے حجابی میں
مگر وہ فتنے جو زیر نقاب جاگتے ہیں

ستم شعارو ہمارا تم امتحان نہ لو
ہمارے صبر سے صد انقلاب جاگتے ہیں

ہمیں خود اپنی سماعت پہ شرم آتی ہے
کہ منبروں سے اب ایسے خطاب جاگتے ہیں

یہ نیند لیتی ہے اخلاقؔ وہ خراج کہ بس
جو خوب سوتے ہیں ہو کر خراب جاگتے ہیں