کبھی جنگل کبھی صحرا کبھی دریا لکھا
اب کہاں یاد کہ ہم نے تجھے کیا کیا لکھا
شہر بھی لکھا مکاں لکھا محلہ لکھا
ہم کہاں کے تھے مگر اس نے کہاں کا لکھا
دن کے ماتھے پہ تو سورج ہی لکھا تھا تو نے
رات کی پلکوں پہ کس نے یہ اندھیرا لکھا
سن لیا ہوگا ہواؤں میں بکھر جاتا ہے
اس لئے بچے نے کاغذ پہ گھروندا لکھا
کیا خبر اس کو لگے کیسا کہ اب کے ہم نے
اپنے اک خط میں اسے دوست پرانا لکھا
اپنے افسانے کی شہرت اسے منظور نہ تھی
اس نے کردار بدل کر مرا قصہ لکھا
ہم نے کب شعر کہے ہم سے کہاں شعر ہوئے
مرثیہ ایک فقط اپنی صدی کا لکھا
غزل
کبھی جنگل کبھی صحرا کبھی دریا لکھا
شین کاف نظام