کبھی ہونٹوں پہ ایسا لمس اپنی آنکھ کھولے
کہ بوسا خودکشی کرنے سے پہلے مسکرا دے
کوئی آنسو چمکنے میں ہمارا ساتھ دیتا
تو زہرہ اور عطارد اپنے گھر کی راہ لیتے
لجا کر رات نے کچھ اور بھی گھونگھٹ نکالا
طلب نے جسم پہنا شوق نے گہنے اتارے
تصور میں ٹہلتے خال و خد کیا چاہتے ہیں
اداسی سے کہو تصویر کی آنکھوں سے پوچھے
دکاں اک سامنے ایسی اچانک آ گئی تھی
جہاں ممکن نہ تھا ہم اپنی جیبوں میں سماتے
بھکارن جاتے جاتے پیچھے مڑ کر دیکھ لے تو
میں اس کے نام کر دوں دل کے مفتوحہ علاقے
اتر آتیں ترے جھیلوں پہ سستانے کو ڈاریں
تو اس دن ہم بھی اپنے غار سے باہر نکلتے
غزل
کبھی ہونٹوں پہ ایسا لمس اپنی آنکھ کھولے
سرفراز زاہد