کبھی ہوا نے کبھی اڑتے پتھروں نے کیا
ہمیں تو نشر عجب سی وضاحتوں نے کیا
تمام منظر شب ڈھیر ہو گیا دل پر
یہ کیا ستم مرے قدموں کی آہٹوں نے کیا
ہر ایک چیز لگی ٹوٹتی سی باہر کی
کہ جو کیا مرے اندر کے منظروں نے کیا
کھلی نہ آنکھ کبھی ایک پل کو صحرا کی
اگرچہ شور بہت اڑتی بستیوں نے کیا
ادھر تو کچھ نہ تھا یوں ہی وہ آتے جاتے رہے
عجب مذاق سفر سے مسافروں نے کیا
میں اپنے آپ سے ڈرنے لگا بھرے گھر میں
یہ مجھ سے کیا مرے اپنے ہی آئنوں نے کیا
کئی طرح سے گھٹایا بڑھایا سایوں کو
مکاں مکاں پہ یہی کام سورجوں نے کیا
غزل
کبھی ہوا نے کبھی اڑتے پتھروں نے کیا
چندر پرکاش شاد