EN हिंदी
کبھی ہنستے نہیں کبھی روتے نہیں کبھی کوئی گناہ نہیں کرتے | شیح شیری
kabhi hanste nahin kabhi rote nahin kabhi koi gunah nahin karte

غزل

کبھی ہنستے نہیں کبھی روتے نہیں کبھی کوئی گناہ نہیں کرتے

فرحت احساس

;

کبھی ہنستے نہیں کبھی روتے نہیں کبھی کوئی گناہ نہیں کرتے
ہمیں صبح کہاں سے ملے کہ کبھی کوئی رات سیاہ نہیں کرتے

ہاتھوں سے اٹھاتے ہیں جو مکاں آنکھوں سے گراتے رہتے ہیں
صحراؤں کے رہنے والے ہم شہروں سے نباہ نہیں کرتے

بیکار سی مٹی کا اک ڈھیر بنے بیٹھے رہتے ہیں ہم
کبھی خاک اڑاتے نہیں اپنی کبھی دشت کی راہ نہیں کرتے

جی میں ہو تو در پر رہتے ہیں ورنہ آوارہ پھرتے ہیں
ہم عشق اس سے کرتے ہیں مگر کوئی با تنخواہ نہیں کرتے

یہ تیرا میرا جھگڑا ہے دنیا کو بیچ میں کیوں ڈالیں
گھر کے اندر کی باتوں پر غیروں کو گواہ نہیں کرتے