کبھی ہم ان کی سنتے ہیں کبھی اپنی سناتے ہیں
اسی دور محبت میں یہ دن یوں بیت جاتے ہیں
کہا تھا جو کبھی تم نے چلو دیکھیں نظارے ہم
اسی قاتل ادا سے اب ہمیں کو کیوں ستاتے ہیں
زمانہ پوچھے گا تمہارے خستہ حال کا بیورا
ہماری بات تو چھوڑو ہمیں یوں ہی بلاتے ہیں
پتہ پوچھے ہمارا جو کہو اب کیا بتائیں ہم
رقیبوں کا پتہ بھی تو نہیں اب ہم بتاتے ہیں
بھلے خوددارؔ کہتا ہو خطا واری نہیں کی ہے
اسے بولو فقیروں میں اسے مرشد بتاتے ہیں

غزل
کبھی ہم ان کی سنتے ہیں کبھی اپنی سناتے ہیں
مدھوکر جھا خوددار