کبھی ہم بت کبھی نور صنم کو دیکھ لیتے ہیں
عقیدہ سے بڑی دیر و حرم کو دیکھ لیتے ہیں
کبھی روتے ہوئے مجھ کو نظر انداز کرتے ہیں
کبھی آنکھوں میں وہ ہلکی سی نم کو دیکھ لیتے ہیں
کبھی اس مسکراہٹ میں کبھی اس بے رخی میں ہم
ستم کو دیکھ لیتے ہے کرم کو دیکھ لیتے ہیں
ہمیں اس واسطے بھی آئینے پر پیار آتا ہے
ہم اپنی آنکھ میں اپنے بلم کو دیکھ لیتے ہیں
بچھڑ کے ہو چکے برسوں مگر خوابوں کو ہے تسلیم
ہم ان کو دیکھ لیتے ہیں وہ ہم کو دیکھ لیتے ہیں
غزل
کبھی ہم بت کبھی نور صنم کو دیکھ لیتے ہیں
میگی آسنانی