EN हिंदी
کبھی ہے گل کبھی شمشیر سا ہے | شیح شیری
kabhi hai gul kabhi shamshir sa hai

غزل

کبھی ہے گل کبھی شمشیر سا ہے

قمر صدیقی

;

کبھی ہے گل کبھی شمشیر سا ہے
وہ گویا وادئ کشمیر سا ہے

روابط سب حصار ہجر میں ہیں
تعلق ٹوٹتی زنجیر سا ہے

برا سا خواب دیکھا تھا جو شب میں
یہ دن اس خواب کی تعبیر سا ہے

ہیں گردش میں لہو ساعت مناظر
زمانہ آنکھ میں تصویر سا ہے

قمرؔ گرداب تک آؤ تو جانو
جو مژدہ لہروں پہ تحریر سا ہے