کبھی ہے گل کبھی شمشیر سا ہے
وہ گویا وادئ کشمیر سا ہے
روابط سب حصار ہجر میں ہیں
تعلق ٹوٹتی زنجیر سا ہے
برا سا خواب دیکھا تھا جو شب میں
یہ دن اس خواب کی تعبیر سا ہے
ہیں گردش میں لہو ساعت مناظر
زمانہ آنکھ میں تصویر سا ہے
قمرؔ گرداب تک آؤ تو جانو
جو مژدہ لہروں پہ تحریر سا ہے
غزل
کبھی ہے گل کبھی شمشیر سا ہے
قمر صدیقی