کبھی ہے آج اور کل کبھی ہے بھلا یہ عہد وصال کیا ہے
ہو وعدہ ایفا کہ ترک الفت یہ روزمرہ کی ٹال کیا ہے
زبان بگڑی ہے آپ ہی کی ہمارا نقصان کیا ہے اس میں
ذرا تمہیں پوچھوں دل سے اپنے بھلا یہ طرز مقال کیا ہے
جو مانگا اک بوسہ میں نے ان سے تو بولے کیا تو سڑی ہوا ہے
ذرا یہ باتیں سنو تو لوگو جواب کیا ہے سوال کیا ہے
انہیں سر رہ اکیلا پا کر یہ بولا چھاتی سے میں لگا کر
کہ اب تو فرما دیں بندہ پرور وصال میں قیل و قال کیا ہے
ہیں ترک الفت میں ہم بھی راضی یہ کہہ دو بے کھٹکے اس صنم سے
بتوں کا اس ہند کی زمیں پر خدا کی رحمت سے کال کیا ہے
کڑا رکھے آدمی جو دل کو تو جھیل لے ہر کڑی کو آساں
بندھی ہوئی ہو جو اپنی ہمت تو کام کوئی محال کیا ہے
یہ کیسی ہیں ٹھنڈی سانسیں کیفیؔ کہیں تو آیا ہے آپ کا دل
یہ منہ نکل آیا کیوں ذرا سا بتائیے تو کہ حال کیا ہے
غزل
کبھی ہے آج اور کل کبھی ہے بھلا یہ عہد وصال کیا ہے
دتا تریہ کیفی