EN हिंदी
کبھی دعا تو کبھی بد دعا سے لڑتے ہوئے | شیح شیری
kabhi dua to kabhi bad-dua se laDte hue

غزل

کبھی دعا تو کبھی بد دعا سے لڑتے ہوئے

ظفر مرادآبادی

;

کبھی دعا تو کبھی بد دعا سے لڑتے ہوئے
تمام عمر گزاری ہوا سے لڑتے ہوئے

ہوئے نہ زیر کسی انتہا سے لڑتے ہوئے
محاذ ہار گئے ہم قضا سے لڑتے ہوئے

بکھر رہا ہوں فضا میں غبار کی صورت
خلاف مصلحت اپنی انا سے لڑتے ہوئے

فضا بدلتے ہی جاگ اٹھی فطرت مے کش
شکست کھا گئی توبہ گھٹا سے لڑتے ہوئے

قلم کی نوک سے بہتا رہا لہو میرا
حصار خلقت فکر رسا سے لڑتے ہوئے

جنوں نورد کو منظر نہ کوئی راس آیا
مرا تو شوخی آب و ہوا سے لڑتے ہوئے

پہنچ سکے نہ کسی خوش گوار منزل تک
تمہاری یاد کی زنجیر پا سے لڑتے ہوئے

انہیں پہ بند ہوا ارتقا کا دروازہ
فنا ہوئے ہیں جو اپنی بقا سے لڑتے ہوئے

ظفرؔ گھرے تو اسی رزم گاہ ہستی میں
ہوئے شہید صف کربلا سے لڑتے ہوئے