کبھی دہکتی کبھی مہکتی کبھی مچلتی آئی دھوپ
ہر موسم میں آنگن آنگن روپ بدل کر چھائی دھوپ
اس کو زخم ملے دنیا میں جس نے مانگے تازہ پھول
جس نے چاہی چھاؤں کی چھتری اس کے سر پر چھائی دھوپ
جانے اپنا روپ دکھا کر کس نے پردہ تان لیا
کس کی کھوج میں آوارہ ہے انگنائی انگنائی دھوپ
چڑھتے سورج کی کرنیں ہیں دولت عزت شہرت شان
آخر آخر ہر دیوار سے یارو ڈھلتی آئی دھوپ
دانش کی افزونی اکثر کرتی ہے دل کو گمراہ
تیز زیادہ ہو تو چھینے آنکھوں کی بینائی دھوپ
ماتھے پر سیندور کی بندیا تھالی میں کچھ سرخ گلاب
نور کے تڑکے اوشا تٹ پر پوجا کرنے آئی دھوپ
کون بڑھائے پیار کی پینگیں اس نٹ کھٹ بنجارن سے
پھرنے کو تو نگری نگری پھرتی ہے ہرجائی دھوپ
جنم جنم کے اندھیارے کا جادو چھن میں ٹوٹ گیا
صابرؔ آج مری کٹیا میں چپکے سے در آئی دھوپ
غزل
کبھی دہکتی کبھی مہکتی کبھی مچلتی آئی دھوپ
نوبہار صابر