EN हिंदी
کبھی بلاؤ، کبھی میرے گھر بھی آیا کرو | شیح شیری
kabhi bulao, kabhi mere ghar bhi aaya karo

غزل

کبھی بلاؤ، کبھی میرے گھر بھی آیا کرو

رمیش کنول

;

کبھی بلاؤ، کبھی میرے گھر بھی آیا کرو
یہی ہے رسم محبت، اسے نبھایا کرو

تمہارے جسم کے اشعار مجھ کو بھاتے ہیں
مری وفا کی غزل تم بھی گنگنایا کرو

تمہارے وصل کی راتوں کی لذتوں کی قسم
مجھے جدائی کے منظر نہ اب دکھایا کرو

قریب آؤ، ان آنکھوں کی جستجو دیکھو
حیات بن کے مرے ساتھ جگمگایا کرو

شریف زادوں کی بے جا خطاؤں سے ملنے
یتیم خانوں کے بچوں سے ملنے جایا کرو

ہمارے حصے میں ماں کی دعائیں آئیں کنولؔ
تم اپنے حصے کی دولت سے گھر سجایا کرو