کبھی اے حقیقت دلبری سمٹ آ نگاہ مجاز میں
کہ تڑپ رہے ہیں ہزاروں دل رہ عشق سینہ گداز میں
یہ کشش یہ جذب یہ معجزہ نگہ یتیم حجاز میں
کہ پڑے تھے سیکڑوں غزنوی بھی جہاں لباس مجاز میں
فقط ایک نقطہ گناہ کا سر چرخ ابر سیہ بنا
نظر آئیں مجھ کو جو وسعتیں تری عفو بندہ نواز میں
یہ نہیں کہ ہم میں نہیں ہیں وہ یہ نہیں کہ عین ہمی ہیں وہ
مگر اک حقیقت معنوی ہے نہاں لباس مجاز میں
نہ انا غلط تھا نہ حق غلط مگر اتنی سی غلطی ہوئی
یہ جو راز تھا اسے چاہیے تھا چھپانا پردۂ راز میں
جسے پی کے پیر بنے جواں جسے پی کے چیخ اٹھے جواں
یہ وہ مے ہے ساقیٔ مے کشاں تری چشم بادہ نواز میں
غزل
کبھی اے حقیقت دلبری سمٹ آ نگاہ مجاز میں
عبدالعلیم آسی