کبھی آنسو کبھی خوابوں کے دھارے ٹوٹ جاتے ہیں
ذرا سی آنکھ میں کیا کیا نظارے ٹوٹ جاتے ہیں
ہوا بھی آج کل رکھتی ہے تیور پتھروں جیسے
یہاں تو سوچ سے پہلے اشارہ ٹوٹ جاتے ہیں
ہمیں تنہائیوں میں یوں صدائیں کون دیتا ہے
سمندر کانپ اٹھتا ہے کنارے ٹوٹ جاتے ہیں
پس دیوار چھپ جاتے ہیں جو طوفان سے ڈر کر
انہیں کی زندگی میں سب سہارے ٹوٹ جاتے ہیں
جبیں پر کون سی تحریر لکھی ہے خدا جانے
ہمارے پاس آ کر کیوں ستارہ ٹوٹ جاتے ہیں
غزل
کبھی آنسو کبھی خوابوں کے دھارے ٹوٹ جاتے ہیں
دنیش ٹھاکر