کبھی آنکھوں پہ کبھی سر پہ بٹھائے رکھنا
زندگی تلخ سہی دل سے لگائے رکھنا
لفظ تو لفظ ہیں کاغذ سے بھی خوشبو پھوٹے
صفحۂ وقت پہ وہ پھول کھلائے رکھنا
چاند کیا چیز ہے سورج بھی ابھر آئے گا
ظلمت شب میں لہو دل کا جلائے رکھنا
حرمت حرف پہ الزام نہ آنے پائے
سخن حق کو سر دار سجائے رکھنا
فرش تو فرش فلک پر بھی سنائی دے گا
میری آواز میں آواز ملائے رکھنا
کبھی وہ یاد بھی آئے تو ملامت کرنا
کبھی اس شوخ کی تصویر بنائے رکھنا
بخشؔ سیکھا ہے شہیدان وفا سے ہم نے
ہاتھ کٹ جائیں علم منہ سے اٹھائے رکھنا
غزل
کبھی آنکھوں پہ کبھی سر پہ بٹھائے رکھنا
بخش لائلپوری