EN हिंदी
کب وہ ظاہر ہوگا اور حیران کر دے گا مجھے | شیح شیری
kab wo zahir hoga aur hairan kar dega mujhe

غزل

کب وہ ظاہر ہوگا اور حیران کر دے گا مجھے

ظفر اقبال

;

کب وہ ظاہر ہوگا اور حیران کر دے گا مجھے
جتنی بھی مشکل میں ہوں آسان کر دے گا مجھے

روبرو کر کے کبھی اپنے مہکتے سرخ ہونٹ
ایک دو پل کے لیے گلدان کر دے گا مجھے

روح پھونکے گا محبت کی مرے پیکر میں وہ
پھر وہ اپنے سامنے بے جان کر دے گا مجھے

خواہشوں کا خوں بہائے گا سر بازار شوق
اور مکمل بے سر و سامان کر دے گا مجھے

منہدم کر دے گا آ کر ساری تعمیرات دل
دیکھتے ہی دیکھتے ویران کر دے گا مجھے

ایک ناموجودگی رہ جائے گی چاروں طرف
رفتہ رفتہ اس قدر سنسان کر دے گا مجھے

یا تو مجھ سے وہ چھڑا دے گا غزل گوئی ظفرؔ
یا کسی دن صاحب دیوان کر دے گا مجھے