EN हिंदी
کب وہ بھلا ہماری محبت میں آ گئے | شیح شیری
kab wo bhala hamari mohabbat mein aa gae

غزل

کب وہ بھلا ہماری محبت میں آ گئے

احمد سجاد بابر

;

کب وہ بھلا ہماری محبت میں آ گئے
ہائے وہ لوگ جو کہ ضرورت میں آ گئے

ویسے تو ان کو سائے سے الجھن بلا کی تھی
مومی بدن تھے دھوپ کی نفرت میں آ گئے

ریزہ وجود میرا ابھی تک ہوا میں ہے
تم تو قریب میرے شرارت میں آ گئے

کچھ تو ہمیں بھی جاگتے رہنے کا شوق تھا
کچھ رت جگے بھی خواب کی قیمت میں آ گئے

آواز دے رہا ہے ابھی کوزہ گر مجھے
یوں لگ رہا ہے چاک سے عجلت میں آ گئے

یادوں کے اس ہجوم سے فرصت نہیں ہمیں
تجھ سے بچھڑ کے کیسی یہ فرصت میں آ گئے

اب آنکھ سے پلا دو مرے یار زندگی
کہ خال و خد کے پار تو وحشت میں آ گئے

یعنی ہمارے نام کی شہرت ہے اوج پر
یعنی فقیہ شہر کی تہمت میں آ گئے

بھائی سبھی پسند کی شادی کے حق میں تھے
بہنوں نے خواب دیکھے تو غیرت میں آ گئے

شاہی مزاج رکھتے ہیں منصف سبھی یہاں
بابرؔ یہ کس طرح کی عدالت میں آ گئے