EN हिंदी
کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا | شیح شیری
kab talak yun dhup chhanw ka tamasha dekhna

غزل

کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا

انور مسعود

;

کب تلک یوں دھوپ چھاؤں کا تماشا دیکھنا
دھوپ میں پھرنا گھنے پیڑوں کا سایا دیکھنا

ساتھ اس کے کوئی منظر کوئی پس منظر نہ ہو
اس طرح میں چاہتا ہوں اس کو تنہا دیکھنا

رات اپنے دیدۂ گریاں کا نظارہ کیا
کس سے پوچھیں خواب میں کیسا ہے دریا دیکھنا

اس گھڑی کچھ سوجھنے دے گی نہ یہ پاگل ہوا
اک ذرا آندھی گزر جائے تو حلیہ دیکھنا

کھل کے رو لینے کی فرصت پھر نہ اس کو مل سکی
آج پھر انورؔ ہنسے گا بے تحاشا دیکھنا