EN हिंदी
کب تلک شادابئ فکر و نظر کام آئے گی | شیح شیری
kab talak shadabi-e-fikr-o-nazar kaam aaegi

غزل

کب تلک شادابئ فکر و نظر کام آئے گی

خلیل رامپوری

;

کب تلک شادابئ فکر و نظر کام آئے گی
گیلے کپڑے سے ہوا پانی اڑا لے جائے گی

بھاگتے گھوڑے کی راسیں کھینچنے سے فائدہ
ڈوبتے سورج کی کیا رفتار کم ہو جائے گی

ذہن پر پھیلا رکھے ہیں جھینگروں نے دائرے
آج جو بھی بات سوچوں گا مجھے الجھائے گی

تک رہے ہیں کس کی جانب نجم خیمے گاڑ کر
دھوپ نکلے گی تو پہلے میرے گھر میں آئے گی

کھل اٹھا ہوں آج میں بھی اس کی صورت دیکھ کر
یہ گھڑی جب آئے گی مجھ کو یوں ہی مہکائے گی

فصل سورج میں اگی ہے تمتماتی ہے زمیں
یہ کہانی پیار کرنے سے سمجھ میں آئے گی

جسم کی پتلی کو روشن کر کے دنیا سے گزر
آنکھ خواہش کی نظر رکھتی ہے دھوکا کھائے گی

زرد پتے کی طرح بے گھر پڑا ہوں راہ میں
زرد پتے کو کوئی شاخ ہوا اپنائے گی

مٹیوں کی تہہ میں موتی پانیوں پر دائرے
سوچتا ہوں کون سی دولت مرے ہاتھ آئے گی

ساتھ لیتی جا ہمیں بھی ڈوبتے سورج کی دھوپ
رات کے غاروں میں تیری یاد ہم کو آئے گی

وہ بھی خوشبو کی طرح خود سے الگ رہنے لگا
جانے یہ موج خیال اس کو کہاں لے جائے گی

کھل رہی ہے خواہشوں کی دھوپ سارے جسم میں
آنکھ کھولوں گا تو یہ تصویر بھی کھو جائے گی

بستیوں میں جنگلوں میں وادیوں میں کوہ میں
میری خوشبو میری دھڑکن میری آہٹ جائے گی

کتنی تصویریں مرے اندر سے ابھریں گی خلیلؔ
جب تری آواز کانوں سے مرے ٹکرائے گی