EN हिंदी
کب تلک مدعا کہے کوئی | شیح شیری
kab talak muddaa kahe koi

غزل

کب تلک مدعا کہے کوئی

ناصر کاظمی

;

کب تلک مدعا کہے کوئی
نہ سنو تم تو کیا کہے کوئی

غیرت عشق کو قبول نہیں
کہ تجھے بے وفا کہے کوئی

منت نا خدا نہیں منظور
چاہے اس کو خدا کہے کوئی

ہر کوئی اپنے غم میں ہے مصروف
کس کو درد آشنا کہے کوئی

کون اچھا ہے اس زمانے میں
کیوں کسی کو برا کہے کوئی

کوئی تو حق شناس ہو یا رب
ظلم کو نارواں کہے کوئی

وہ نہ سمجھیں گے ان کنایوں کو
جو کہے برملا کہے کوئی

آرزو ہے کہ میرا قصۂ شوق
آج میرے سوا کہے کوئی

جی میں آتا ہے کچھ کہوں ناصرؔ
کیا خبر سن کے کیا کہے کوئی