کب تلک چلنا ہے یوں ہی ہم سفر سے بات کر
منزلیں کب تک ملیں گی رہ گزر سے بات کر
تجھ کو مل جائے گا تیرے سب سوالوں کا جواب
کشتیاں کیوں ڈوب جاتی ہیں بھنور سے بات کر
کب تلک چھپتا رہے گا یوں ہی اپنے آپ سے
آئنے کے روبرو آ اپنے ڈر سے بات کر
بڑھ چکی ہیں اب تری فکر و نظر کی وسعتیں
جگنوؤں کو چھوڑ اب شمس و قمر سے بات کر
اس طرح تو اور بھی تیری گھٹن بڑھ جائے گی
ہم نوا کوئی نہیں تو بام و در سے بات کر
درد کیا ہے یہ سمجھنا ہے تو اپنے دل سے پوچھ
آنسوؤں کی بات ہے تو چشم تر سے بات کر
ہر سفر منظر سے پس منظر تلک تو کر لیا
دیکھنا کیا چاہتی ہے اب نظر سے بات کر
دھوپ کیسے سائے میں تبدیل ہوتی ہے یہاں
اس ہنر کو سیکھنا ہے تو شجر سے بات کر
زخم پوشیدہ رہا تو درد بڑھتا جائے گا
بے تکلف ہو کے اپنے چارہ گر سے بات کر

غزل
کب تلک چلنا ہے یوں ہی ہم سفر سے بات کر
بھارت بھوشن پنت