کب شوق مرا جذبے سے باہر نہ ہوا تھا
تھا کون سا قطرہ جو سمندر نہ ہوا تھا
کیا یاد تری دل کو مرے کر گئی تاریک
اک گوشہ بھی تو اس کا منور نہ ہوا تھا
کس طرح کوئی عہد وفا مجھ سے کرے آج
جب روز ازل میں یہ مقدر نہ ہوا تھا
دیدار کی حسرت ہی ہوئی وجہ تاسف
قسمت میں مری حرف مکرر نہ ہوا تھا
آنکھوں میں جگہ اس کو ملی واہ رے تقدیر
وہ قطرہ جو خوش بختی سے گوہر نہ ہوا تھا
غرقاب ہوئی کشتئ ہستی لب ساحل
شاکرؔ تو ابھی اس کا شناور نہ ہوا تھا

غزل
کب شوق مرا جذبے سے باہر نہ ہوا تھا
شاکر خلیق