کب سماں دیکھیں گے ہم زخموں کے بھر جانے کا
نام لیتا ہی نہیں وقت گزر جانے کا
جانے وہ کون ہے جو دامن دل کھینچتا ہے
جب کبھی ہم نے ارادہ کیا مر جانے کا
دست بردار ابھی تیری طلب سے ہو جائیں
کوئی رستہ بھی تو ہو لوٹ کے گھر جانے کا
لاتا ہم تک بھی کوئی نیند سے بوجھل راتیں
آتا ہم کو بھی مزہ خواب میں ڈر جانے کا
سوچتے ہی رہے پوچھیں گے تری آنکھوں سے
کس سے سیکھا ہے ہنر دل میں اتر جانے کا
غزل
کب سماں دیکھیں گے ہم زخموں کے بھر جانے کا
شہریار