EN हिंदी
کب سماں دیکھیں گے ہم زخموں کے بھر جانے کا | شیح شیری
kab saman dekhenge hum zaKHmon ke bhar jaane ka

غزل

کب سماں دیکھیں گے ہم زخموں کے بھر جانے کا

شہریار

;

کب سماں دیکھیں گے ہم زخموں کے بھر جانے کا
نام لیتا ہی نہیں وقت گزر جانے کا

جانے وہ کون ہے جو دامن دل کھینچتا ہے
جب کبھی ہم نے ارادہ کیا مر جانے کا

دست بردار ابھی تیری طلب سے ہو جائیں
کوئی رستہ بھی تو ہو لوٹ کے گھر جانے کا

لاتا ہم تک بھی کوئی نیند سے بوجھل راتیں
آتا ہم کو بھی مزہ خواب میں ڈر جانے کا

سوچتے ہی رہے پوچھیں گے تری آنکھوں سے
کس سے سیکھا ہے ہنر دل میں اتر جانے کا