کب پاؤں فگار نہیں ہوتے کب سر میں دھول نہیں ہوتی
تری راہ پہ چلنے والوں سے لیکن کبھی بھول نہیں ہوتی
سر کوچۂ عشق آ پہنچے ہو لیکن ذرا دھیان رہے کہ یہاں
کوئی نیکی کام نہیں آتی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی
ہر چند اندیشۂ جاں ہے بہت لیکن اس کار محبت میں
کوئی پل بے کار نہیں جاتا کوئی بات فضول نہیں ہوتی
ترے وصل کی آس بدلتے ہوئے ترے ہجر کی آگ میں جلتے ہوئے
کب دل مصروف نہیں رہتا کب جاں مشغول نہیں ہوتی
ہر رنگ جنوں بھرنے والو شب بے داری کرنے والو
ہے عشق وہ مزدوری جس میں محنت بھی وصول نہیں ہوتی

غزل
کب پاؤں فگار نہیں ہوتے کب سر میں دھول نہیں ہوتی
جمال احسانی