کب نشاں میرا کسی کو شب ہستی میں ملا
میں تو جگنو کی طرح اپنی ہی مٹھی میں ملا
بھاگ نکلا تھا جو طوفاں سے چھڑا کر دامن
سر ساحل وہی ڈوبا ہوا کشتی میں ملا
آنکھ روشن ہو تو دنیا کے اندھیرے کیا ہیں
رستہ مہتاب کو راتوں کی سیاہی میں ملا
میں جلاتا رہا تیرے لیے لمحوں کے چراغ
تو گزرتا ہوا صدیوں کی سواری میں ملا
تو نے منگتوں کو اچٹتی ہوئی نظریں بھی نہ دیں
ہاتھ پھیلایا نہ جس نے اسے جھولی میں ملا
میں اک آنسو ہی سہی ہوں بہت انمول مگر
یوں نہ پلکوں سے گرا کر مجھے مٹی میں ملا
محفلوں میں کیا لوگوں نے مظفرؔ کی تلاش
وہ بھٹکتا ہوا افکار کی وادی میں ملا
غزل
کب نشاں میرا کسی کو شب ہستی میں ملا
مظفر وارثی