کب مجھے طالع ناساز پہ رونا آیا
دل ناداں کی تگ و تاز پہ رونا آیا
اس کی پرسش پہ جو دیکھا متبسم مجھ کو
رازداں کو مرے انداز پہ رونا آیا
آج صیاد کو بھی اپنے گرفتاروں کی
جانے کیوں کوشش پرواز پہ رونا آیا
آ گیا سامنے انجام تڑپ اٹھا دل
اپنے افسانے کے آغاز پہ رونا آیا
منحصر اشک کی دو بوند پہ تھا جس کا بھرم
مجھ کو اے قادریؔ اس راز پہ رونا آیا
غزل
کب مجھے طالع ناساز پہ رونا آیا
شاغل قادری