EN हिंदी
کب مٹائے سے مٹا رنج و صعوبت کا اثر | شیح شیری
kab miTae se miTa ranj-o-suubat ka asar

غزل

کب مٹائے سے مٹا رنج و صعوبت کا اثر

مرلی دھر شاد

;

کب مٹائے سے مٹا رنج و صعوبت کا اثر
ہے وطن میں بھی مرے چہرے پہ غربت کا اثر

ہو چلا عشق مجازی پہ حقیقت کا اثر
آ چلا مجھ کو نظر کثرت میں وحدت کا اثر

ساری دنیا سے نہیں مجھ سے فقط بیزار تھے
اور اس سے بڑھ کے کیا ہوتا محبت کا اثر

بے وفا ان کا لقب ہے باوفا میرا خطاب
وہ ہے طینت کی خرابی یہ ہے الفت کا اثر

معجزہ دیکھا تصور کا تو آنکھیں کھل گئیں
پا رہا ہوں آج میں جلوت میں خلوت کا اثر

وہ پری سے حور بن جاتے یقینی بات تھی
ان کی سیرت پر اگر پڑ جاتا صورت کا اثر

ان پہ دل ہی آ گیا لے ہی گئے وہ میرا دل
یہ تقاضا حسن کا تھا وہ شرارت کا اثر

اک جگہ رہتا نہ تھا ٹک کر یہ عادت تھی مری
کھینچ لایا خلد تک اب مجھ کو وحشت کا اثر

خیر سے ملتے جو بد خونی ہے چہرے سے عیاں
یہ مثل سچ ہے کہ ہو جاتا ہے صحبت کا اثر

آپ کیا تھے ہو گئے کیا فیض سے استاد کے
دیکھ لیجے شادؔ یہ ہوتا ہے نسبت کا اثر