EN हिंदी
کب مری حلقۂ وحشت سے رہائی ہوئی ہے | شیح شیری
kab meri halqa-e-wahshat se rihai hui hai

غزل

کب مری حلقۂ وحشت سے رہائی ہوئی ہے

مبشر سعید

;

کب مری حلقۂ وحشت سے رہائی ہوئی ہے
دل نے اک اور بھی زنجیر بنائی ہوئی ہے

اور کیا ہے مرے دامن میں محبت کے سوا
یہی دولت مری محنت سے کمائی ہوئی ہے

عشق میں جرات تفریق نہیں قیس کو بھی
تو نے کیوں دشت میں دیوار اٹھائی ہوئی ہے

تیری صورت جو میں دیکھوں تو گماں ہوتا ہے
تو کوئی نظم ہے جو وجد میں آئی ہوئی ہے

اک پری زاد کے یادوں میں اتر آنے سے
زندگی وصل کی بارش میں نہائی ہوئی ہے

اپنی مٹی سے محبت ہے محبت ہے مجھے
اسی مٹی نے مری شان بڑھائی ہوئی ہے

سامنے بیٹھ کے دیکھا تھا اسے وصل کی رات
اور وہ رات ہی اعصاب پہ چھائی ہوئی ہے

تم گئے ہو یہ وطن چھوڑ کے جس دن سے سعیدؔ
اک اداسی در و دیوار پہ چھائی ہوئی ہے