کب کسی گہرے سمندر کو ہوا سمجھے گی
سطح پر تیرتی موجوں کو نوا سمجھے گی
دو بدن درد کی لہروں پہ بھی مل سکتے ہیں
اس رسالت کو کہاں باد صبا سمجھے گی
روح کا زخم نہ پڑھ پائے گا گوتم پھر بھی
وہ پجارن اسی پتھر کو خدا سمجھے گی
وقت کافر کی خدائی ہے گنہ گار بہت
ساری معصوم نمازوں کو قضا سمجھے گی
اس حویلی کی روایت ہی شریفانہ ہے
خود کو نیلام چڑھا کر بھی بجا سمجھے گی
جانے کب اترے گا خورشیدؔ بشارت مجھ میں
کب یہ تنہائی مجھے غار حرا سمجھے گی
غزل
کب کسی گہرے سمندر کو ہوا سمجھے گی
خورشید اکبر

