EN हिंदी
کب کسی گہرے سمندر کو ہوا سمجھے گی | شیح شیری
kab kisi gahre samundar ko hawa samjhegi

غزل

کب کسی گہرے سمندر کو ہوا سمجھے گی

خورشید اکبر

;

کب کسی گہرے سمندر کو ہوا سمجھے گی
سطح پر تیرتی موجوں کو نوا سمجھے گی

دو بدن درد کی لہروں پہ بھی مل سکتے ہیں
اس رسالت کو کہاں باد صبا سمجھے گی

روح کا زخم نہ پڑھ پائے گا گوتم پھر بھی
وہ پجارن اسی پتھر کو خدا سمجھے گی

وقت کافر کی خدائی ہے گنہ گار بہت
ساری معصوم نمازوں کو قضا سمجھے گی

اس حویلی کی روایت ہی شریفانہ ہے
خود کو نیلام چڑھا کر بھی بجا سمجھے گی

جانے کب اترے گا خورشیدؔ بشارت مجھ میں
کب یہ تنہائی مجھے غار حرا سمجھے گی