EN हिंदी
کب ہمیں خود پہ اعتبار آیا | شیح شیری
kab hamein KHud pe eatibar aaya

غزل

کب ہمیں خود پہ اعتبار آیا

صادقہ فاطمی

;

کب ہمیں خود پہ اعتبار آیا
بس ترے نام سے قرار آیا

زمزمہ خواں جو تیرے حسن کا تھا
مجھ کو اس پر بھی کیسا پیار آیا

کیسا خوں راستوں میں بہتا ہے
کیسی بستی ہے کیا دیار آیا

اس کے وعدے تو صرف وعدے تھے
پھر بھی ہر بار اعتبار آیا